فیض احمد فیض 13 فروری  1911 میں پنجاب میں پیدا ہوئے۔ انگریزی اور عربی میں ایم اے کیا۔ امرت سر کالج میں لیکچرر کی حیثیت سے ملازمت کی۔9 مارچ 1951 میں پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خاں کی حکومت کا تختہ    پلٹنے    کی  سازش  (راولپنڈی سازش کیس)  میں معاونت کے الزام میں حکومت وقت نے انھیں گرفتار کر لیا۔ چار سال سرگودھا،حیدر آباد اور کراچی کی جیل میں رہے اور 2 اپریل 1955 کو رہا ہوئے۔ راولپنڈی کے علاوہ 1958 میں سیفٹی ایکٹ کے تحت بھی فیض کو گرفتار کیا گیا ۔ ان تمام مشکلات و رکاوٹوں کے باوجود شعر و ادب کی تشیہر اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے ہمہ تن مصروف رہے۔ انھیں ’لینن پیس ‘اعجاز سے نوازہ گیا۔ 20 نومبر 1984 میں لاہور،پاکستان میں اس دار فانی سے رخصت ہو گئے۔

فیض ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہےاورتحریک  کا حصہ بن کر زبان و ادب کی بیش بہا خدمت انجام دی ۔یہ دور سیاسی اور ادبی لحاظ سے تبدیلیوں کا دور تھا۔ایک طرف  انقلاب روس،فاشزم،جنگ عظیم دوم اور تحریک آزادی جیسے واقعات رو نما ہو رہے تھے  تودوسری طرف تقسیم ہند  کے نتیجے میں ہونے والےفسادات،سیاسی انتشاراور اختلافات نے ان کی فکر و ذہن پر گہرا اثر ڈالا۔ فیض نے شعر و ادب کو اپنی فکر کے اظہار کا وسیلہ بنایااور شعری اسالیب و افکار میں قومی وعالمی  صورتحال کو  پیش کر کے انسان دوستی کا سبق دیا۔ انھوں نے  غزل کے ساتھ  عمدہ  نظمیں بھی لکھیں۔یہ نظمیں موضوعات و انداز بیان کا بے مثال نمونہ ہیں۔ ان کی نظموں میں  لہجے کی کشش،  ادبی حسن کا احساس دلاتی ہے اورظلم و نا انصافی کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کو حوصلہ، ہمت، عزم اور ثابت قدمی عطا کرتی ہے۔ ایک نظم میں رومان  سے حقیقت کی طرف متوجہ ہوکر  زمانے  کےغموں کو کچھ اس طرح پیش کرتے ہیں۔

 اب بھی دل کش ہے ترا حسن مگر کیا کیجے

اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا

راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا

مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ

فیض کے یہاں غم جاناں اور غم دوراں کی خوبصورت پیش کش ملتی ہے۔ انھوں نے عشق و انقلاب کو شعر میں پیش کر کے ایک منفرد اسلوب اختیار کیا ہے۔  صرف انقلابی ہی نہیں بلکہ  وہ لب و رخسار اور محبت  کی باتیں بھی کرتے ہیں ۔ ان کے شعری اظہار میں سورج، چاند، ستارے، شمع اور گل و گلشن جیسے الفاظ رومانی ماحول فراہم کرتے ہیں۔  انسانی جذبات کی ترجمانی اور دل کے رخسار پر یاد کا نرم  ہاٹھ اس قدر پیارے  سے  رکھتے ہیں کہ نہ صرف تغزل  کا رنگ گہرا ہو تا ہے بلکہ ہجر میں وصل کا احساس  بھی ہو تا ہے۔ نظم ’یاد‘ کا بند ملاحظہ ہو۔

اس قدر پیار سے اے جان جہاں رکھا ہے

دل کے رخسار پہ اس وقت تیری یاد نے ہاتھ

یوں گماں ہوتا ہے گرچہ ہے ابھی صبح فراق

ڈھل گیا ہجر کا دن آبھی گئی وصل کی رات

  وہ ہجر  میں وصل کے متمنی ہونے کے ساتھ انقلابی فکر کے حامل ہیں لہٰذا سرمایہ دارانہ لوٹ کھسوٹ،استحصال زدہ عوام،مزدوروں اور کسانوں کے حقوق ان کی شاعری کو جداگانہ رنگ دیتے ہیں۔وہ معاشرہ میں ایسے انقلاب کے خواہاں  ہیں جو استحصالی نظام کو بدل دے۔ یہی وجہ ہے کہ ملکی آزادی ،مساوات و برابری ان کی شاعری کا ہم مرکز ہے۔وہ حصول ٓازادی کے  لیےجہد مسلسل اور  سعی پیہم کی دعوت دیتے ہیں۔عوام و مزدوروں ، اہل وطن اور ملک و قوم کے خیر خواہوں کو حالات سے مایوس ہونے کے بجائے پر امید اور مقصد کی بازیابی کے لیے ہمہ تن کوشاں رہنے کا پیغام دیتے ہیں۔انھوں نے اس ترقی پسند فکر و احساس کو  مختلف نظموں میں پیش کیا ہے۔چند مثالیں پیش ہیں۔

اے خاک نشینوں اٹھ بیٹھو

وہ وقت قریب آ پہنچا ہے

جب تخت گرائے جائیں گے

جب تاج اچھالے جائیں گے

اب ٹوٹ گریں گی زنجیریں

جو دریا جھوم کے اٹھے ہیں 

تنکوں سے نہ ٹالے جائیں گے

کٹتے بھی چلو، بڑھتے بھی چلو

۔۔۔۔۔۔۔

ابھی چراغ سرِ رہ کو کچھ خبر ہی نہیں

اب گرانی شب میں  کوئی  کمی نہیں آئی

نجات  دیدہ  و دل  کی   گھڑی  نہیں آئی

چلے  چلو  کہ  وہ  منزل  ابھی  نہی  آئی

۔۔۔۔۔۔۔

اپنے افکار کی، اشعار کی دنیا ہے یہی

جان مضموں ہے یہی ، شاہدِ معنی ہے یہی

آج تک سرخ و سیہ صدیوں کے سائے تلے

آدم و حوا کی اولاد پہ کیا گزری ہے ؟

موت اور زیست کی روزانہ صف آرائی میں

ہم پہ کیا گزرے گی اجداد پی کیا گزری ہے؟

ان دمکتے ہوئے شہروں کی فراواں مخلوق

کیوں فقط مرنے کی حسرت میں جیا کرتی ہے؟

یہ حسیں کھیت پھٹا پڑتا ہے جوبن جن کا!

کس لیے ان میں فقط بھوک اگا کرتی ہے

انداز بیان سادہ اور عام فہم ہے۔ فیض نے  تشبیہات،استعارات اور فارسی تراکیب سے شعری اسلوب میں دلکشی پیدا کی ہے۔ شعری علامتوں،اشاروں اور کنایوں کو نئے معنی و مفاہیم میں پیش کیا ہے۔ وہ الفاظ کا استعمال بہت غور و فکر کے بعد کرتے ہیں۔ مخصوص الفاظ و تراکیب نہ صرف نئے معنی دیتے ہیں بلکہ ان کے شعری اظہار میں ترنم اور سادگی کا احساس بھی دلاتے ہیں ۔ انھوں نے ’قفس و زنداں،گل و بلبل،زنجیر و سلاسل،دار و رسن،مے و ساغر،صبا اور سحر‘ جیسی علامتوں کو اپنے ماحول اور سیاسی حالات کے اظہار کا وسیلہ بنایا  جہاں ’صبح و شام، صیاد ، گلشن و گلچیں، جنون و دیوانگی، عقل و خرد، واعظ و ناصح، بہار و خزاں اور وصل و فراق جیسی علامتیں  سیاسی رنگ اختیار کر کے ان کی شاعری میں نیا پن پیدا کرتی ہیں۔

گلوں میں رنگ بھرے، بادِ نو بہار چلے

چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے

قفس اداس ہے یارو، صبا سے کچھ تو کہو

کہیں تو بہرِ خدا آج ذکرِ یار چلے

کبھی تو صبح ترے کنجِ لب سے ہو آغاز

کبھی تو شب سرِ کاکل سے مشکبار چلے

بڑا ہے درد کا رشتہ یہ دل غریب سہی

تمہارے نام پہ آئیں گےغمگسار چلے

جو ہم پہ گزری سو گزری مگر شبِ ہجراں

ہمارے اشک تری عاقبت سنوار چلے

مقام فیضؔ کوئی راہ میں جچا ہی نہیں

جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے

انھوں نے ’قفس‘ اور ’صبا‘ کی علامتوں کے ذریعے دور غلامی کی بیچینی کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے یہاں’چمن‘ اور ’گلشن‘ غلام ملک اور ’قفس‘ قید کے مطلب میں استعمال ہوئے ہیں۔’صبا‘ اہل وطن اور اسیران زنداں کے درمیان پیغام رساں اور ہمدم کے معنی میں استعمال ہوئی ہے۔ ’محبوب‘ سے مراد ملک یا قوم ہے اور’رقیب‘ و’ ناصح ‘ سے  ملک دشمن عناصر مراد  ہیں جو ہمدردی کے صورت میں عوام کو ہراساں اور گمرہ کرتے ہیں۔ عشقیہ علامتیں بھی  گہری معنویت رکھتی ہیں۔ان کے یہاں’عشق‘  سے مراد انقلابی ولولہ و جذبہ حریت ہے۔’عاشق‘ و رند مجاہد،انقلابی ، باغی اور’معشوق‘،وطن وعوام  کے معنی میں استعمال ہواہے۔’وصل‘ انقلاب، آزادی و سماجی تبدیلی کی علامت ہے جبکہ ’ہجر‘ جبر، ظلم و استحصال کی نشانی ہے۔’شراب ،میخانہ، پیالہ، ساقی‘ وغیرہ الفاظ سماجی و سیاسی بیداری کا محرک ہیں۔یہ علامتیں عشق و محبت کے ساتھ سماجی بیداری، سیاسی نظام،حکومتی انتشار اور جبر و استحصال کا مفہوم بھی بڑی کامیابی سے ادا کرتی ہیں۔نظم ’اے دل بے تاب ٹھہر ‘ میں لکھتے ہیں:

تیرگی ہے کہ امنڈتی ہی چلی آتی ہے 

شب کی رگ رگ سے لہو پھوٹ رہا ہو جیسے 

چل رہی ہے کچھ اس انداز سے نبض ہستی 

دونوں عالم کا نشہ ٹوٹ رہا ہو جیسے 

رات کا گرم لہو اور بھی بہہ جانے دو 

یہی تاریکی تو ہے غازۂ رخسار سحر 

صبح ہونے ہی کو ہے اے دل بے تاب ٹھہر 

’دار ورسن اور زنجیر‘کی علامت آمریت پسند رویہ  کی  نمائند گی کرتی ہے تاہم انقلاب اورحصول منزل کا راستہ بھی انہی علامتوں سے گذرتا ہے ۔’تاریکی اور سیاہی‘  ظلم  اوراستحصال کی علامتیں ہیں جو شخصی و قومی  آزادی میں رکاوٹ ہیں جبکہ صبح،درخشاں،سورج، روشنی‘ سرخی، اور شفق جیسی علامات  نئی زندگی،امن اور انسان دوستی کے معنی میں استعمال ہوئی ہیں ۔’سحر‘ کی  علامت آزادی کا نشان ہے۔ ملکی و جمہوری آزادی اور انصاف پروری کے متعلق چند مثالیں پیش ہے۔

نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں

چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے

جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے

نظر چرا کے چلے جسم و جاں بچا کے چلے

ہے اہل دل کے لیے اب یہ نظم بست و کشاد

کہ سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد

بہت ہے ظلم کے دست بہانہ جو کے لیے

جو چند اہل جنوں تیرے نام لیوا ہیں

بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی منصف بھی

کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں

مختصر یہ کہ فیض کی شاعری  محبت و انقلاب کا  بے مثال  نمونہ ہے۔نقش فریادی، دست صبا، زندگی نامہ، دست تہہ سنگ، ‘میرے دل میرے مسافر، سر وادی سینا ان کے مشہور شعری مجموعے ہیں۔

Revolutionary Poet Faiz Ahmed Faiz: A Brief Introduction

Faiz Ahmed Faiz was born on 13 Febuary 1911, in Punjab. He completed his Master’s degrees in English and Arabic and worked as a lecturer at Amritsar College. On March 9, 1951, he was arrested by the government on charges of involvement in the Rawalpindi Conspiracy Case, which was an alleged coup attempt against Pakistan’s first Prime Minister, Liaquat Ali Khan. Faiz spent four years in prison in Sargodha, Hyderabad, and Karachi, before being released on April 2, 1955. Apart from the Rawalpindi case, he was also arrested in 1958 under the Safety Act.

Despite all these hardships, Faiz remained dedicated to promoting literature and human rights. His contributions to world peace earned him the Lenin Peace Prize. He passed away on November 20, 1984, in Lahore, Pakistan.

Faiz was associated with the Progressive Writers’ Movement, significantly contributing to literature and social justice. His era was marked by political and literary changes, including the Russian Revolution, fascism, World War II, and the Indian independence movement. The horrors of Partition, political unrest, and social conflict had a deep impact on his thoughts. He used poetry as a medium to express his ideology, blending national and global concerns with a humanistic approach.

Faiz wrote both ghazals and nazms (poems), enriching poetic themes and expressions. His poetry had a unique lyrical beauty and inspired courage, resilience, and determination against oppression. One of his most famous verses transitions from romanticism to harsh reality, expressing the pains of life beyond love:

“Your beauty is still captivating, but what can be done?
There are other sorrows in the world besides love.
There are greater joys than the comfort of union.
Do not ask me, my beloved, for the love I once had.”

Faiz beautifully balanced the sorrows of love and the sorrows of the world. His poetry blended romance with revolution, making his style unique. While he spoke of beauty and love, he also used poetic symbols like the sun, moon, stars, candles, and gardens to create a romantic atmosphere. His poetry delicately conveyed human emotions, making even the pain of separation feel like an intimate experience. A famous stanza from his poem “Yad” (Memory) illustrates this:

“So tenderly, O beloved of the world,
Your memory has touched the cheek of my heart.
Even though it is the morning of separation,
It feels as if the day of sorrow has ended,
And the night of union has begun.”

Faiz’s poetry was not limited to romance; it was deeply revolutionary. He addressed issues like capitalist exploitation, workers’ rights, and social injustice. His poetry was a call for change, seeking a revolution to dismantle exploitative systems. His core themes included freedom, equality, and justice, urging people to persist in their struggles and remain hopeful. Some of his most powerful revolutionary verses include:

“O people of the earth, rise!
The time has come near
When thrones will be toppled,
When crowns will be thrown away.
Chains will break apart now,
No longer will rivers be stopped
By mere twigs and branches!”

And another:

“The lamp on the path still does not know
That the burden of the night has not yet lifted.
The moment of freedom for hearts and souls
Has not yet arrived.
Keep moving forward, for that destination
Has not yet been reached.”

Faiz’s poetry was a mirror of his revolutionary ideals. He asked critical questions:

“What has happened to Adam and Eve’s children
Under the shadows of history’s dark centuries?”
“Why do the people of these glowing cities
Live only in the hope of dying?”
“Why do the golden fields, bursting with harvest,
Only yield hunger?”

His poetic style was simple yet profound, enriched with metaphors and Persian imagery. He used symbolism effectively, giving new meanings to traditional poetic expressions. Common motifs in his poetry included chains, prisons, the cage (qafas), the dawn (sahar), the breeze (saba), and gardens (gulshan), all representing political oppression and resistance. His words beautifully captured the struggles of his time:

“Fill the flowers with color, let the new spring breeze blow.
Come back, so the garden may bloom again.
The cage is sorrowful, my friends, say something to the breeze,
So at least today, for God’s sake, the beloved’s name is spoken.”

In this poem, “qafas” (cage) represents imprisonment, while “saba” (breeze) symbolizes communication and hope. His use of words like “beloved” often hinted at his homeland or oppressed people, while “enemies” symbolized oppressors and dictators. Love in his poetry was not just romantic love but a passion for revolution and freedom.

His poetry also used symbols of intoxication (wine, tavern, goblet, and cupbearer), which traditionally represented love but in his work, symbolized political awakening and rebellion. His poem “O Restless Heart, Be Patient” illustrates this:

“Darkness is overflowing like a storm,
As if the night’s veins are bleeding.
Life’s pulse is fading away,
As if all intoxication is breaking.
Let the night’s blood flow freely,
For it is the blush on the face of dawn.
Morning is near, O restless heart, be patient.”

In his poetry, darkness symbolizes oppression, while morning and dawn represent liberation and justice. He believed that struggles and sacrifices were necessary for a brighter future. His poems reflected his belief in freedom, democracy, and human dignity:

“I sacrifice myself for your streets, O my country,
Where the custom is that no one walks with their head held high.
Those who wish to walk freely
Must hide their faces, must save their bodies.
Here, even stones and bricks are imprisoned,
Yet stray dogs roam free.”

“The oppressors are both accusers and judges,
Who shall we call as our lawyer, from whom shall we seek justice?”

Conclusion

Faiz Ahmed Faiz’s poetry remains a timeless blend of love and revolution. His works like Nuskha Hai Wafa, Dast-e-Saba, Zindaan Nama, Dast-e-Tah-e-Sang, Mere Dil Mere Musafir, and Sar-e-Wadi-e-Sina continue to inspire generations. His words capture the spirit of resistance, the pain of oppression, and the hope for freedom, making him one of the most influential poets of the modern era.

—-

The original Urdu was written by Dr. Mohd Raza Ali, Senior Instructor of Hindi and Urdu at Zabaan School for Languages.

It was translated to English by Ali Taqi, Founder and Senior Instructor of Hindi and Urdu at Zabaan School for Languages, an institution dedicated to teaching languages and literature to the public at large.